Dushyant Kumar
دشینت کمار

Dushyant Kumar (September 27, 1931-December 31, 1975) was born at Navada Village of Bijnor District in Uttar Pradesh. He got his M.A. degree in Hindi from Allahabad. Dushyant Kumar wrote poems, dramas, short stories, novels and ghazals. He is well known for his collection of ghazals ‘Saaye Mein Dhoop’. His other poetical works are Pehli Pehchan, Surya Ka Swagat, Aawazon Ke Ghere and Jalte Huye Van Ka Vasant. Dushyant Kumar is a poet of common man. His poetry is like a bitter medicine for society. His language is very simple but meaningful. Dushyant Kumar remains optimistic while writing about the ignorance, timidity, fears and pains of the people. Many new poets get inspiration from him.
دشینت کمار (ستمبر 27، 1931-دسمبر، 1975) کا جنم اتر پردیش کے بجنور ضلعے کے نوادا گانو میں ہوا ۔ انھوننے ایم.اے. ہندی کی پڑھائی اﷲ آباد سے کی۔ انھوننے بہت سی کوتاییں، ناٹک، لگھُ کہانیاں، ناول اور غزلیں لکھیں ۔ انکا غزل-سنگریہہ ''سایے میں دھوپ'' بہت لوک-پرء ہے ۔ انکی اور کاوی رچناییں ہیں : سوری کا سواگت، آوازوں کے گھیرے، جلتے ہئے ون کا وسنت اور ایک کنٹھ وشپایی (کاوی ناٹکا) ۔ وہ عامَ لوگوں کے شاعر ہیں اور انکی شاعری سماج کے لئے کڑوی دوا ہے ۔ وہ لوگوں کی اگیانتا، ڈر اور دکھوں کی بات کرتے ہئے بھی آشاوادی بنے رہتے ہیں۔ وہ کئی نیے شائروں کے لئے بھی رہنما ہیں۔

سایے میں دھوپ دشینت کمار

  • اگر خدا ن کرے سچ یہ خواب ہو جائے
  • اپاہج ویتھا کو وہن کر رہا ہوں
  • افواہ ہے یا سچ ہے یہ کوئی نہیں بولا
  • اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار
  • آج سڑکوں پر لکھے ہیں سینکڑوں نعرے ن دیکھ
  • آج ویران اپنا گھر دیکھا
  • اس ندی کی دھار میں ٹھنڈی ہوا آتی تو ہے
  • اس راستے کے نام لکھو ایک شام اور
  • ایک کبوتر چٹھی لیکر پہلی-پہلی بار اڑا
  • ایک گڑییا کی کئی کٹھپتلییوں میں جان ہے
  • حالاتِ جسم سورتے جاں اور بھی خراب
  • ہو گئی ہے پیر پروت-سی پگھلنی چاہیئے
  • ہونے لگی ہے جسم میں جمبش تو دیکھیئے
  • کہاں تو تی تھا چراغاں ہریک گھر کے لئے
  • کہیں پے دھوپ کی چادر بچھاکے بیٹھ گئے
  • کسی کو کیا پتہ تھا اس ادا پر مر مٹینگے ہم
  • کیسے منظر سامنے آنے لگے ہیں
  • کھنڈہر بچے ہئے ہیں عمارت نہیں رہی
  • گھنٹییوں کی گونج کانوں تک پہنچتی ہے
  • چاندنی چھت پے چل رہی ہوگی
  • جانے کس-کسکا خیال آیا ہے
  • زندگانی کا کوئی مقصد نہیں ہے
  • تمہارے پانووں کے نیچے کوئی زمین نہیں
  • تمکو نہارتا ہوں صبح سے رتمبرا
  • تمنے اس تالاب میں روہو پکڑنے کے لیئے
  • تونے یہ ہرسنگار ہلاکر برا کییا
  • دیکھ دہلیج سے کائی نہیں جانے والی
  • دھوپ یہ اٹھکھیلییاں ہر روز کرتی ہے
  • نظر-نواز نظارہ بدل ن جائے کہیں
  • پک گئی ہیں آدتیں، باتوں سے سر ہونگی نہیں
  • پرندے اب بھی پر تولے ہئے ہیں
  • پرانے پڑ گئے ڈر پھینک دو تم بھی
  • پھر دھیرے-دھیرے یہاں کا موسم بدلنے لگا ہے
  • بہت سنبھال کے رکھی تو پائیمال ہئی<
  • باییں سے اڑکے دائیں دشا کو گرڑ گیا
  • باڑھ کی سمبھاونائیں سامنے ہیں
  • بھوکھ ہے تو صبر کر، روٹی نہیں تو کیا ہوا
  • مت کہو اکاش میں کوہرا گھنا ہے
  • مرنا لگا رہے گا یہاں جی تو لیجیئے
  • میرے گیت تمہارے پاس سہارا پانے آئینگے
  • میں جسے اوڑھتا-بچھاتا ہوں
  • یہ سچ ہے پانووں نے بہت کشٹ اٹھائے
  • یہ شفق شام ہو رہی ہے اب
  • یہ سارا جسم جھککر بوجھ سے دوہرا ہوا ہوگا
  • یہ جباں ہمسے سی نہیں جاتی
  • یہ جو شہتیر ہے پلکوں پے اٹھا لو یارو
  • یہ دھئیں کا ایک گھیرا کہ میں جسمیں رہ رہا ہوں
  • یہ روشنی ہے حقیقت میں ایک چھل لوگو
  • روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے
  • لفظ ایہساس-سے چھانے لگے یہ تو حد ہے
  • وو آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے
  • وو نگاہیں صلیب ہیں